نحمده ولا تعينه وتصلي على رسوله الكريم. أما بعد آفتاب اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں بے اصولی اور ہے اور وی راہ پائے ہوئے تھی ، اسی طرح دنیا کی سب سے بڑی جھگڑے کی چیز وراثت وترکہ میں بھی معیار استحقاق عجیب تھا ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما تھا ، طاقت وقوت کی بنیاد پر ترکہ تقسیم ہوتا تھا، کمزوروں ،غریبوں قیموں اور بیواؤں کو اس کے قریب پھینکنے نہیں دیا جا تا تھا عرب کہتے تھے کیف تعطى المال من لا يُرْكَبُ فرساء ولا يحمل سيفًا، ولايُقَاتِلُ عدوا الا المواریث میں (۲) یعنی میراث کے مستحق وہ لوگ کیسے ہو سکتے ہیں جو نہ گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، نہ تلوار اٹھاتے ہیں اور نہ ہی دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں !! اسلام کے جامع نظام میراث نے صاحب حق کو اس کا حق دیا، ایسے کامل واکمل نظام کی نظیر نہ پہلے دنیا میں تھی اور نہ بعد میں ہوگی، اللہ تعالی نے صاف اعلان فرما دیا ہے: لا ندرون أنهم أقْرَبُ لَكُم نفعا ، یعنی تمہیں معلوم ہیں کہ تم کو زیادہ فائدہ کس سے ہوگا؟ تمہارا اپنا بنایا ہوا قانون بے کار ہے، فريضة من اللہ کے الہ کا قانون ہے۔ علم مواریث کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے، اسے نصف علم کہا گیا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں علم فرائض کے ماہر کچھ مخصوص افراد تھے ، ائمہ اربعہ نے اس کے اصول وضوابط کو شرح واط کے ساتھ بیان فرمایا، پھر علمائے امت نے اس مفصل کتا میں لکھیں، احناف نے اس کو اپنی فقہ میں کتاب الفرائض“ کے عنوان سے بیان فرمایا اور تقل تصانیف بھی کی گئیں